Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Go Nawaz Go (2)

Go Nawaz Go (2)

گو نواز گو (2)

ہوانگ دافا کے پاس دو آپشن تھے، یہ پورے گاؤں کے ساتھ نقل مکانی کر جاتا یا پھر یہ اپنے لوگوں کے لیے پانی کا بندوبست کرتا، یہ دونوں آپشن مشکل تھے، بارہ سو لوگوں کے لیے نئی جگہ کی تلاش، نئے کھیت، نئے مکان، نئے اسکول اور روزگار کے نئے ذرایع کا انتظام آسان کام نہیں تھا۔

نقل مکانی کی صورت میں اسے اپنے ماضی، اپنی تاریخ، اپنے بزرگوں کی قبروں سے بھی محروم ہونا پڑتا اور اپنی وہ زمین بھی چھوڑنا پڑتی جو نسلوں نے آباد کی تھی جب کہ دوسرا ٹاسک بھی ناممکن تھا، گاؤں میں پانی ختم ہو رہا تھا، زمینیں بنجر ہو رہی تھیں، کھیتوں میں خاک اڑ رہی تھی اور لوگ پینے کے پانی کے لیے ترس رہے تھے، پانی کا بندوبست کیسے ہو سکتا تھا؟

ہوانگ دافا کے سامنے دو ناممکنات تھے، نقل مکانی یا پھر پانی کا بندوبست، وہ سوچتا رہا یہاں تک کہ اس نے دوسرے ناممکن کو ممکن بنانے کا فیصلہ کر لیا، اس نے گاؤں کے لیے پانی کے بندوبست کا فیصلہ کر لیا، یہ 1959ء تھا، ہوانگ دافا اس وقت جوان تھا، وہ گاؤں کاؤوینگ با (Caowangba)کا سردار تھا، گاؤں پہاڑوں کے قدموں میں آباد تھا، آبادی کو 1958ء تک چشمے سیراب کرتے تھے لیکن پھر یہ چشمے اچانک سوکھ گئے اور گاؤں خشک سالی کا شکار ہونے لگا۔

ہوانگ نے پانی کی تلاش شروع کی، پتہ چلا تین پہاڑوں کے فاصلوں پر ایک چھوٹی سی جھیل موجود ہے اور یہ اگر تین پہاڑ کاٹ کر پانی کو راستے دے دے تو گاؤں سیراب ہوجائے گا لیکن تین پہاڑ کاٹنا ممکن نہیں تھا، آپ خود سوچئے 1959ء کا زمانہ ہو، چین کا ملک ہو، ٹیکنالوجی اور لوگ دونوں غریب ہوں اور دور دراز علاقے کا ایک غیر معروف گاؤں ہو اور اس گاؤں میں پانی کی مسلسل قلت ہو اور گاؤں کا ایک شخص تین پہاڑ کاٹ کر پانی لانے کا فیصلہ کرے تو آپ کو کیسا لگے گا۔

آپ بھی یقینا اسے دوسرے لوگوں کی طرح پاگل سمجھیں گے، لوگوں نے ہوانگ کو بھی پاگل ڈکلیئر کر دیا لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا، اس نے گاؤں کے لیے پانی کی راشننگ کی، پہاڑ توڑنے کے اوزار جمع کیے اور پہاڑ کاٹنا شروع کر دیا، ہوانگ یہ کام مسلسل 36 سال کرتا رہا، ان 36برسوں میں برفیں پڑیں، طوفان آئے، گرمیاں آئیں، برساتیں آئیں اور زلزلے آئے لیکن ہوانگ ڈٹا رہا، وہ پہاڑ توڑتا رہا، وہ شروع میں اکیلا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے، وہ بھی اس کے کام میں شریک ہو گئے، اس ناممکن کام کے دوران ایک مشکل ترین مرحلہ بھی آیا، وہ لوگ پہاڑ کے درمیان 100 میٹر لمبی سرنگ کھودنے پر مجبور ہو گئے، یہ سرنگ ناگزیر تھی۔

یہ لوگ سرنگ کے بغیر پانی آگے نہیں لے جا سکتے تھے اور یہ سرنگ بنانے کے فن سے نابلد تھے، ہوانگ نے اس کا بھی دلچسپ حل نکالا، یہ قریبی شہر فینگ زیانگ گیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، اس نے یونیورسٹی سے پانی کے بہاؤ اور ندیوں کی تعمیر کا علم حاصل کیا، یہ گاؤں واپس آیا، اپنا علم دوسرے لوگوں کو سکھایا اور یہ لوگ سرنگ کھودنے میں مشغول ہو گئے، یہ سرنگ بھی مکمل ہوگئی اور پھر وہ وقت آ گیا جب ہوانگ نے پہاڑ کے اوپر کھڑے ہو کر پانی کا ناکا توڑا، پانی جھیل سے نکلا، دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا، سو میٹر لمبی سرنگ سے گزرا اورہوانگ کے گاؤں پہنچ گیا۔

ہوانگ نے ان 36برسوں میں 7200میٹر لمبی نالی اور 2200 میٹر لمبا نالہ تیار کیا، یہ دونوں مل کر نہر بنے اور یہ نہر عزم اور حوصلے کی نئی تاریخ بن گئی، یہ لوگ اب اس پانی سے نہ صرف اپنی اور اپنے جانوروں کی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ یہ سالانہ 40 لاکھ کلو گرام چاول بھی اگاتے ہیں، ہوانگ پورے علاقے کا ہیرو ہے، لوگ اوتار کی طرح اس کی عزت کرتے ہیں۔

یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے، اس چھوٹی سی کہانی نے ہمارے ہمسائے ملک چین میں جنم لیا، آپ یہ کہانی پڑھیے اور سوچئے ہوانگ دافا ایک اکیلا آدمی تھا، اس اکیلے آدمی نے 36 سال لگا کر تین پہاڑ کاٹے، دس کلومیٹر لمبی نہر بنائی اور اپنے گاؤں کو سیراب کر لیا جب کہ ہم 20 کروڑ لوگ ہیں، ہم 20 کروڑ لوگ مل کر بھی اپنے مسئلے حل نہیں کر پا رہے، آپ صرف کراچی شہر کی مثال لے لیجیے، کراچی اڑھائی کروڑ لوگوں کا شہر ہے، یہ شہر روزانہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے۔

یہ کچرا سڑکوں اور گلیوں میں بکھرا ہوا ہے، نالیاں، نالے اور گٹر ابل رہے ہیں، سڑکوں پر سیوریج کا پانی بہہ رہا ہے اور ماحول میں آلودگی کی شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، شہر پینے کے پانی کی خوفناک قلت کا شکار بھی ہے، شہر کو روزانہ گیارہ سو ملین گیلن پانی چاہیے جب کہ اسے 700 ملین گیلن پانی مل رہا ہے اورشہر کا بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہے، بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ ہے، پاک سرزمین پارٹی نے ان مسائل کے حل کے لیے 18 دن کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا۔

مصطفی کمال حکومت کا ضمیر جگانے کی کوشش میں ہلکان ہو گئے لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی، ایم کیو ایم پاکستان بھی مسلسل احتجاج کر رہی ہے، پاکستان مسلم لیگ ن بھی "کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا" کی دہائیاں دے رہی ہے، وزیراعلیٰ سندھ بھی وفاق کو دھمکا رہے ہیں اور کراچی کے لوگ بھی پانی پانی، بجلی بجلی اور کچرا کچرا کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ہوانگ دافا نہیں۔

کوئی ایک شخص ایسا نہیں جو چین کے اس جنونی کی طرح اٹھے اور کراچی کا کچرا اٹھانا شروع کر دے، جو شہر کے لیے نہر کھودنا شروع کر دے، جو سمندر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنا دے، جو لوگوں کو پانی کو تین تین بار استعمال کرنے کی ٹریننگ دے، آپ سب سے پہلے پانی پئیں، کھانا کھائیں، منہ، برتن اور کپڑے دھوئیں، اس استعمال شدہ پانی کی تھوڑی سی ٹریٹمنٹ کریں اور پھر اس پانی سے فرش دھوئیں، گاڑیاں صاف کریں۔

پودوں اور گملوں کو سیراب کریں اور پھر اس پانی کو تھوڑا سا مزید ٹریٹ کرکے اسے ٹوائلٹس میں استعمال کریں یوں پانی تین بار استعمال ہوگا اوراس کی کھپت میں دو تہائی کمی آ جائے گی اور کراچی میں کوئی ایک شخص نہیں جو لوگوں کو بارش کا پانی اسٹور کرنے کا طریقہ سکھا دے، لوگ زیر زمین ٹینک بنائیں، بارش کا پانی جمع کریں اور یہ پانی فلیش سسٹم، فرش اور گاڑیوں کی دھلائی اور پودوں کے لیے استعمال کریں، کیا پورے کراچی شہر میں کوئی ایک ایسا ہوانگ دافا نہیں جو لوگوں کو اپنے اپنے گھر کا کچرا ٹھکانے لگانے کا طریقہ سکھا دے، کراچی میں روزانہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔

کراچی میں اڑھائی کروڑ لوگ رہتے ہیں، ہم اگر کل کچرے کو اڑھائی کروڑ پر تقسیم کریں تو کراچی میں کچرے کی شرح نکل آئے گی، یہ شرح معمولی ہوگی، کیا لوگ اپنا اپنا کچرا ٹھکانے نہیں لگا سکتے، ہر شخص جلانے والی اشیاء کو الگ کرکے جلا دے، دفن کرنے والی اشیاء کو دفن کر دے اور کاغذ، پلاسٹک اور شیشے کو الگ کرکے بوریوں میں ڈالے اور ہفتے کے آخر میں کباڑیئے کو بیچ دے، ہر شخص کو اس کام میں روزانہ دس منٹ لگیں گے اور شہر صاف ہو جائے گا، کراچی کے تمام محلوں میں محلہ کمیٹیاں بھی بن سکتی ہیں، یہ کمیٹیاں محلے کی صفائی کا بندوبست کریں۔

ایک سویپر پوری گلی کے لیے کافی ہوگا، لوگ تھوڑے تھوڑے پیسے ڈال کر سویپر کا بندوبست کریں اور یوں اپنا محلہ صاف کر لیں، بجلی کا مسئلہ بھی قابل حل ہے، آپ کراچی کا شارٹ فال دیکھیں۔ "پیک آورز" نکالیں اور ان "پیک آورز" میں تین تہائی بتیاں بجھا دیں، تین کے بجائے ایک پنکھے سے کام چلائیں، صرف ایک اے سی چلالیں، پیک آورز میں موٹر اور استری کا استعمال بند کر دیں، یوں شارٹ فال کم ہو جائے گا اور لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی، کیا پورے شہر میں کوئی ایک ایسا شخص نہیں جو ریلیوں اور دھرنوں کے بجائے عملی قدم اٹھائے، جو ہوانگ دافا کی طرح کام شروع کر دے، شاید کوئی نہیں۔

آپ ملک کی بدقسمتی ملاحظہ کیجیے، ہمارے ملک میں گو نواز گو اور رو عمران رو کے نعرے لگانے والے لاکھوں ہیں لیکن مسائل حل کرنے والا کوئی شخص نہیں، ہم میں سے ہر شخص کو چوپڑی بھی چاہیے اور دو دو بھی لیکن ہم میں سے کوئی پکانے کے لیے تیار نہیں، ہم سب کسی ایسے لیڈر کا انتظار کر رہے ہیں جو دنیا بھر میں جھولی پھیلائے، پیسے اکٹھے کرے اور یہ پیسے 20 کروڑ لوگوں میں بانٹ دے، کیا یہ ممکن ہے، جی نہیں، قوموں کو قوم ہوانگ دافا جیسے لوگ بناتے ہیں، ہم جب تک اپنے ملک میں ایسے لوگ پیدا نہیں کریں گے، ہم اس وقت تک قوم نہیں بنیں گے، ہم اس وقت تک ریلیاں نکالتے اور گو نواز گو کے نعرے لگاتے رہیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Irtaash Ma Baad, Ki Zad Mein Aaya Ewan e Bala

By Irfan Siddiqui