Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Hamein Sambhalna Hoga

Hamein Sambhalna Hoga

ہمیں سنبھلنا ہوگا

آپ اسکیم ملاحظہ کریں۔ بھارت سیاچین سے کراچی تک ہمارے پورے مشرقی بارڈر پر موجود ہے، ہماری سرحد کے ساتھ بھارت کی دس چھاؤنیاں ہیں، یہ چھاؤنیاں ہر وقت تیار رہتی ہیں، بھارت نے ان چھاؤنیوں کو کمک دینے کے لیے بھی تمام بندوبست کر رکھے ہیں، یہ ہر سال دو سال بعد کولڈ اسٹارٹ اور ہاٹ اسٹارٹ کی مشقیں کرتا رہتا ہے، بھارت کا دفاعی بجٹ 27 کھرب 40 ارب روپے ہے، اس نے 2017-18ء کے بجٹ میں 10فیصد اضافہ کر دیا، یہ بجٹ ہمارے کل بجٹ سے سات گنا زیادہ ہے، ہم نے 70برسوں میں بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑیں، ہمیں بھارت کی وجہ سے ایٹمی پروگرام پر اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑے، ہم بھارت کی وجہ سے سات دہائیوں سے اپنا پیٹ کاٹ کر دفاع پر بھاری رقم خرچ کر رہے ہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا محاذ بھی مسلسل سلگ رہا ہے، یہ محاذ مستقبل قریب میں بھی سلگتا رہے گا۔

ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا بھارت نے ہمیں ستر برسوں میں برداشت کیا اور نہ ہی یہ ہمیں آنے والے دنوں میں کرے گا، ہم ان کے نظریئے کے خلاف ہیں، ہم ان کی آن، ان کے وجود کے سامنے چیلنج ہیں اور یہ ہمیں کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گا، بھارت اپنی 9 ریاستوں کو "آپ پاکستان کا حشر دیکھ لیں" کا ڈراوا دے کر اپنے ساتھ جوڑ ے بیٹھا ہے، اگر پاکستان قائم رہتا ہے، یہ اگر ترقی کر جاتا ہے تو بھارت کے اندر 9 نئے پاکستان بن جائیں گے اور یہ اس کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا لہٰذا یہ ہم پر حملہ آور رہا اور یہ حملہ آور رہے گا۔

یہ مشرقی سرحد کی صورت حال تھی، ہم اب مغربی سرحد کی طرف آتے ہیں، ہمارے مغرب میں دو ملک ہیں، افغانستان اور ایران، یہ دونوں 70 سال ہمارا دفاع رہے، ایران ہمارا دوست تھا، شاہ ایران پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہتے تھے، یہ پاکستان آنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے تھے، امام خمینی کے انقلاب کے بعد بھی ایران کے پاکستان سے دوستانہ تعلقات رہے، پاکستان میں چار کروڑ شیعہ آباد ہیں، یہ کل آبادی کا20 فیصد بنتے ہیں، یہ 20فیصد لوگ بھی ایران اور پاکستان کے درمیان بانڈ ہیں، ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخ کے بے شمار دریا بھی بہتے ہیں، خاندان غلاماں کے ادوار ہوں یا پھر مغلوں کا دور ہندوستان کے بے شمار حکمران ایران سے تعلق رکھتے تھے یا پھر یہ سینٹرل ایشیا، ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران کے حکمران بھی تھے۔

فارسی زبان ہزار سال تک ہندوستان کی قومی زبان رہی اور پاکستان کے چار صوبوں میں آٹھ سو سال نو روز کا تہوار منایا جاتا رہا چنانچہ ایران پاکستان کا قدرتی دفاع تھا، یہ صدیوں کے وہ تعلقات تھے جن کی وجہ سے پاکستان نے 60 سال ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگائی اور نہ چیک پوسٹیں بنائیں، لوگ چلتے چلتے اُدھر سے اِدھر آجاتے تھے اور اِدھر سے گھومتے گھومتے اُدھر چلے جاتے تھے، افغانستان پاکستان کا دوسرا قدرتی دفاع تھا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2430کلومیٹر لمبا بارڈر ہے، یہ بارڈر چترال کی واہ خان پٹی سے شروع ہوتا ہے اور چمن تک جاتا ہے، یہ بارڈر ڈیورنڈ لائین کہلاتا ہے، یہ لائین برطانوی ڈپلومیٹ مورٹیمرڈیورنڈ نے 1893ء میں کھینچی تھی۔

پاکستان نے قیام کے بعد اس لائین کو من وعن تسلیم کر لیا، ہماری قبائلی ایجنسیاں اس سرحد کی محافظ تھیں، پاکستان 70 سال افغانستان کی جغرافیائی اور نظریاتی حفاظت کرتا رہا، یہ "لینڈ لاکڈ" ملک ہے، اس کی ایک سائیڈ پر سوویت یونین تھا، دوسری سائیڈ پر چین اور تیسری سمت میں ایران، یہ تینوں ملک افغانستان کے مخالف تھے، پاکستان نے اس صورتحال میں افغانستان کی بھرپور مدد کی، ہم نے اسے "ٹرانزٹ ٹریڈ" کی سہولت بھی دی اور ہم دہائیوں تک اسے آٹا، دالیں، سیمنٹ اور ادویات بھی فراہم کرتے رہے، روسی حملے کے بعد پاکستان نے 50 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی، ہم نے افغانستان کو روس سے بچانے کے لیے دس سال تک جنگ بھی لڑی، ہم نے اس جنگ میں اپنا بیڑا غرق کر لیا لیکن افغانستان کا ساتھ نہ چھوڑا، بھارت ہمارے ان دونوں دفاع سے واقف تھا، یہ جانتا تھا افغانستان اور ایران ہماری پیٹھ ہیں اور چین بازو چنانچہ اس نے ایک لمبی پالیسی بنائی اور آہستہ آہستہ ہماری پیٹھ ننگی کرنا شروع کر دی۔

را نے افغانستان اور ایران میں اپنے ٹھکانے بنائے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سرمایہ کاری کی، میڈیا کو اپنے ہاتھ میں لیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے، ان کے طالب علموں کو اپنی یونیورسٹیوں میں داخلے دیے، الیکشنوں میں سرمایہ کاری کی، اپنی مرضی کی حکومتیں تشکیل دیں، بیورو کریسی کو اپنے کنٹرول میں کیا اور دونوں ملکوں کی فوجوں کو ٹریننگ دی، یہ کام مکمل ہوگیا تو بھارت نے کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کے ذریعے پاکستان کے اندر افراتفری پھیلانا شروع کر دی۔

کراچی کے حالات خراب کیے گئے، طالبان کو رقم، بارود اور خودکش حملوں کی ٹریننگ دی گئی، شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے سرمایہ خرچ کیا گیا یوں ہمارے اندرونی حالات خراب ہونے لگے، یہ حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ ہم ملک کے اندر فوجی آپریشن پر مجبور ہو گئے، سوات آپریشن ہوا، کراچی آپریشن شروع ہوا، ضرب عضب اور ردالفساد کا آغاز ہوا اور فاٹا میں آپریشن ہوئے، ہماری فوج جب داخلی محاذوں میں مصروف ہوگئی تو بھارت نے افغانستان اور ایران کی سرحدوں کی طرف سے بھی پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا، آپ 8 سال کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ان آٹھ برسوں میں افغانستان اور ایران کی سرحدیں ایکٹو نظر آئیں گی، ہماری پیٹھ پر 8 سال سے گولہ باری بھی ہو رہی ہے اور سرحدی خلاف ورزی بھی۔

آپ تازہ ترین واقعات بھی ملاحظہ کیجیے، مئی میں ایران اور افغانستان دونوں سرحدوں سے بری خبریں آنے لگیں، پانچ مئی کی صبح افغان فوج نے چمن کے قریب پاکستان کے دو گاؤں کلی لقمان اور کلی جہانگیر پر قبضہ کر لیا، یہ دونوں گاؤں منقسم ہیں، ان کا ایک حصہ افغانستان میں ہے اور دوسرا پاکستان میں، پاک فوج نے افغان حکومت کو اطلاع دے دی تھی پاک فوج کے جوان چار اور پانچ مئی کو مردم شماری کے سلسلے میں ان دونوں گاؤں کا دورہ کریں گے لیکن افغان فوج نے اس پیشگی اطلاع کے باوجود پاک فوج کے جوانوں اور عام شہریوں پر حملہ کر دیا، افغان فوج نے دونوں گاؤں کے گھروں پر بھی قبضہ کر لیا، لڑائی ہوئی اور لڑائی میں افغانستان کے 50 فوجی مارے گئے جب کہ پاکستان کی طرف سے 9 لوگ شہید ہو گئے۔

ان میں پاک فوج کے دواہلکار بھی شامل ہیں، یہ لڑائی افغانستان اور پاکستان کو جنگی صورت حال تک لے آئی، ایران نے بھی دو روز قبل پاکستان کے اندر گھس کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی، یہ دھمکی ایران کے آرمی چیف جنرل محمد حسین باقری نے دی، ایران کا دعویٰ ہے جیش العدل نام کے ایک دہشت گرد گروپ نے 26 اپریل کو ایرانی صوبے سیستان میں پاکستانی سرحد کے قریب دس سرحدی گارڈز قتل کر دیے تھے، یہ لوگ پاکستان میں پناہ گاہیں بنا کر بیٹھے ہیں اور یہ یہاں سے ایران کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ایران کی دھمکی اور افغانستان کا حملہ معمولی واقعات نہیں ہیں، آپ اگر ان دونوں واقعات کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو ان کے پیچھے بھارت نظر آئے گا۔

بھارت نے مسلسل 15 سال ایران اور افغانستان میں کام کیا، یہ اس دوران پاکستان کو مذاکرات اور مسئلہ کشمیر کے حل کا لولی پاپ دیتا رہا، بھارت میاں نواز شریف، جنرل پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی کا پورا دور پاکستان سے مذاکرات مذاکرات کھیلتا رہا اور اس دوران افغانستان اور ایران میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا، آپ اگر ذرا سی گہرائی میں جا کر تجزیہ کریں تو آپ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں را کا بڑا دفتر اور اس دفتر میں طالبان کی لیڈر شپ کی آمدورفت دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، آپ کو اسی طرح افغانستان میں بھی بھارتی کمپنیوں کے پراجیکٹس پریشان کر دیں گے، افغانستان کے زیادہ ترقیاتی کام بھارتی کمپنیوں کے پاس ہیں، یہ کمپنیاں اور بھارتی سرکار افغانوں کو اس پاکستان کا جانی دشمن بنا چکی ہیں جس نے 35سال افغانوں کو پناہ بھی دی اور انھیں پال پوس کر جوان بھی کیا۔

ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں بھارت اس مشق سے فائدہ کیا اٹھانا چاہتا ہے، بھارت دراصل پاکستانی فوج کو تھکانا چاہتا ہے، ہم بھارت کی وجہ سے اپنی فوج کا بڑا حصہ ملک کے اندر لگا چکے ہیں، ہماری فوج ملک کے اندر دہشت گردوں کی تلاش میں دوڑ رہی ہے، یہ کشمیر کی ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر بھی بیٹھی ہے، یہ مشرقی سرحدوں کی حفاظت بھی کر رہی ہے، یہ کراچی میں بھی کام کر رہی ہے، یہ چاروں صوبوں میں بھی سیکیورٹی ڈیوٹی دے رہی ہے، یہ فاٹا میں بھی لڑ رہی ہے اور یہ اب افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر بھی توجہ دے رہی ہے، بھارت جانتا ہے دنیا کی بہترین سے بہترین فوج بھی یہ صورتحال زیادہ عرصہ برداشت نہیں کر سکتی۔

یہ تھک جاتی ہے اور پاکستانی فوج جلد یا بدیر تھک جائے گی اور بھارت اس وقت کا انتظار کر رہا ہے، یہ ہم پر اس وقت ایک بڑا حملہ کرے گا اور یہ اس کی اصل اسکیم ہے لیکن کیا ہم دشمن کی یہ اسکیم سمجھ رہے ہیں، میرا خیال ہے نہیں کیونکہ ہم اگر سمجھتے ہوتے تو آج پاکستان میں سول اور ملٹری کا پھڈا نہ ہوتا، آج میاں نواز شریف اور جنرل باجوہ ایک صفحے پر ہوتے، ہمیں ماننا پڑے گا سول اور ملٹری کا پھڈا ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور پاکستانی لیڈر اگر ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو پھر انھیں حالات کی نزاکت سمجھنا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں بھارت ہمیں چاروں اطراف سے گھیر کر مارنے کی پریکٹس کر رہا ہے، ہمیں جاگنا ہوگا، ہمیں سنبھلنا ہوگا۔

نوٹ: میں نے 11اگست 2016ء کو"پاکستان خطرے میں ہے"کے عنوان سے بھارتی عزائم پر ایک کالم تحریر کیا تھا، میں قوم کو جگانے کے لیے یہ کالم کل دوبارہ آپ کے حضور پیش کروں گا، شاید قوم جاگ جائے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Muaqaf Ki Talash

By Ali Akbar Natiq