1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Asif Jami
  4. Gustakhi Ki Talash Aur Hum

Gustakhi Ki Talash Aur Hum

گستاخی کی تلاش اور ہم

اقوامِ عالم سے پیچھے ہونے کے دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ہم اہلِ وطن کو جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں سے اہم ترین شے اخلاقی اعتبار سے گرواٹ کا شکار ہونا ہے۔ ہم کسی بھی معاملے کو فوراً ردِعمل دینے اور بغیر تصدیق و تائید کے کسی خبر کو پھیلانے اور پراپیگنڈے کا حصہ بننے کو کارِ خیر سمجھتے ہیں۔ وہ معاملہ چاہے سیاسی و مذہبی ہو یا پھر معاشرتی و عائلی۔۔ ان ساری چیزوں میں تحمل، بردباری اور حسنِ ظن ہی ایک سچے اور کھرے شخص کا دائیہ اور شناخت ہونی چاہیے۔

سیاسی معاملات میں رونا تو ایک طرف، مذہبی تشخص اور تعارف کے حاملین بھی اپنے مقاصد کے لئے اِن اخلاقی اقدار کی پامالی کو کوئی جرم نہیں سمجھتے۔ ان سب میں سے حساس ترین اور بنیادی مسئلہ شخصیات اور مقدسات کے بارے دوسروں کی نیت پہ حملہ آور ہونا اور الزام لگانا ہے۔ آپ جس بات کو جس طرح دیکھتے، سنتے اور سمجھتے ہیں وہی حقیقت اور سچ ہے اگرچہ سامنے والے کی نیت، عمل اور ارادہ بالکل مختلف اور برعکس ہو۔

یہی معاملہ کسی دوسرے کے کسی عمل و طرز سے گستاخی اور بے ادبی کا پہلو نکالنے میں کار فرما نظر آتا ہے، دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کسی کے متعلق یوں بات پھیلا دینا، الزامات و اتہامات لگانا کس قدر سنگین جرم ہے اس کا اندازہ وہاں کے ہتکِ عزت کے قوانین اور ان پر عملدرآمد سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہم اُن ممالک کے قصیدہ خواں تو ہیں لیکن وہی اصول و ضوابط یہاں اپناتے ہوئے ہمیں کھجلی ہونے لگتی ہے۔

ماضی قریب میں ہونے والے کچھ واقعات کو دیکھا جائے تو اسی عجلت اور جذبات کے غلط استعمال نے ہی پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کی۔ وہ سیالکوٹ کے سری لنکن مینیجر والا واقعہ ہو، جڑانوالہ میں مسیحی برادری کی بستی جلنے کے محرکات ہوں یا پھر اچھرے میں خاتون کے لباس سے توہین کا پہلو نکالنے کی بات! ان سب میں جو چیز مشترک ہے وہ فوراً ردِ عمل کی نفسیات اور جذبات کے استعمال سے کچھ مذموم مقاصد کی تکمیل ہے۔ حالانکہ بعد کی تحقیقات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھنے کے مطابق اگر دیکھا جائے تو وہاں رعایت اور سہولت کے اسباب نکل سکتے تھے۔

یہ سہولت اور رعایت دینی احکامات کے عین مطابق اور ہمارے تمام بڑے اکابر کی تعلیمات کے بالکل موافق ہیں۔ تمام جید اہلِ علم اس بات کو ذکر کرتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اگر کہیں کفر و توہین کے ننانوے احتمالات ہوں اور ایک فیصد شبہ اس ملزم کے حق میں جاتا ہو تو اسے اس ایک احتمال کی وجہ سے رعایت دی جائے گی۔ لیکن ایسے معاملات میں شخصیات اور ان سے عقیدت نے ہمیں کس قدر انجان کردیا ہے کہ اب یہ آگ اپنے ہی گھر تک پہنچتی محسوس ہورہی ہے۔ اس کی وجہ وہ تربیت و عوامل ہیں جو خاموش اور غیر محسوس طریقے سے ہمارے اندر سرایت کیے جاچکے ہیں۔

ایک ایسا ہی افسوس ناک واقعہ گزشتہ جمعہ داتا دربار لاہور کی جامع مسجد میں پیش آیا جس کی تفصیلات اور تحقیق و چھان بین کے بغیر ہی منفی خبریں زور پکڑنا شروع ہوگئیں۔ یوں کہ خطیب داتا دربار ایک سید زادے کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں، وہ متکبر، رافضی اور ایجنڈے پہ کام کرنے والے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ ملکِ شام سے تشریف لائے معزز مہمان شیخ عبدالعزیز خطیب جیلانی جو سلسلۂ نسب میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے جاملتے ہیں، جمعرات کے روز خطاب کے لئے کراچی سے لاہور پہنچے۔ انکے قریبی ساتھیوں کی جانب سے جب انکے بیان و امامت کی تشہیر کی گئی تو میں نے محض معلومات کے لئے اُس روز کی ترتیب اور وقت کے حوالے سے خطیب داتا دربار مفتی محمد رمضان سیالوی صاحب سے اس بابت استفسار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے مجھ سے کوئی مشاورت، اطلاع یا خبر نہیں پہنچی۔ میں نے اسی وقت شیخ صاحب کے اردو مترجم علامہ عامر اخلاق شامی کو اطلاع دی کہ خطیب صاحب یا محکمہ کے ساتھ رابطہ کرلیا جائے تاکہ صبح کوئی بدمزگی وغیرہ نہ ہو!

اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے آفس سے مبشر نامی ایک پروٹوکول آفیسر (جوکہ چار سال قبل شیخ عبدالعزیز خطیب صاحب کے مرید ہوچکے ہیں اور اپنے پیر و مرشد سے انتہاء کی عقیدت رکھتے ہیں) متحرک ہوتے ہیں۔ ڈی جی اوقاف کے سکوت اور خطیب صاحب کی جانب سے جواب نہ ملنے پر وہ سیکرٹری اوقاف کے ہاں جاتے ہیں اور یہ سماجت کرتے ہیں کہ یہ میرے شیخ و مرشد شام سے تشریف لائے ہیں انہیں یہ جمعہ داتا دربار پڑھانے دیا جائے، سیکرٹری اوقاف نے مروت یا لحاظ میں ایڈمنسٹریٹر اوقاف کو فون کروایا اور وقت کی ترتیب اور تعیین پہ بات آگئی۔

مہمان مکرم اور انکے مریدین کی جانب سے چالیس منٹ کی استدعا کی گئی جبکہ محکمہ کی سفارش پر خطیب داتا دربار نے احتراماً اور تکریم کے جذبے سے انہیں کہا کہ اگر بیس پچیس منٹ کی بات ہے تو میرے خطاب کے بعد آپ بیان فرما لیجئے گا اور اگر آپ زیادہ وقت ہی چاہتے ہیں تو پھر اذانِ جمعہ کے فوراً بعد ساڑھے بارہ بجے سے 1 بج کر 10 منٹ تک وعظ فرمائیے۔ اس امر پہ اتفاق ہوا اور نجانے کس وجہ سے مہمان معزز اور انکے ساتھی تقریباً 25 منٹ تاخیر سے پہنچے۔ دربار پہنچنے پر سلام کیا اور پھر 12 بج کے 55 منٹ پہ خطاب شروع کیا۔

اصولاً اور طے کئے گئے معاہدے کے مطابق آنے والے مہمان شیخ صاحب کا وقت ایک بج کر دس منٹ تک بنتا تھا لیکن احترام اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے خطیب داتا دربار مزید پندرہ منٹ تاخیر سے مسجد ہال میں تشریف لائے جس پر عوام اور زائرین نے اپنے روایتی انداز اور قدیمی روایت کے تسلسل کے طور پر کھڑے ہوکر استقبال کیا اور کلمہ کا ورد شروع کیا گیا۔ اب شیخ صاحب کے وعظ کے دوران یہ عمل ہوا جس سے شیخ صاحب اور بظاہر دیکھنے والوں نے اسے اچھا محسوس نہ کیا۔ جبکہ خطیب صاحب مؤذن قاری عمر صاحب کو پہلے کہہ چکے تھے کہ مترجم کو بتا دیجئے کہ مزید 10 منٹ لینے کے بعد آپ پانچ منٹ میں شیخ صاحب کی گفتگو ختم کروائیے۔ لیکن استحقاق سمجھتے ہوئے بیان جاری رکھنا اور چاہتے نہ چاہتے ہوئے یہ عمل ہوجانا بعد میں اس قدر منفی شکل اختیار کر جائے گا یہ اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک شیخ صاحب اور انکے مترجم جمعہ کی ادائیگی کے بغیر نہ چلے جاتے۔

پھر اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پہ ایک طرح سے خطیب داتا دربار کے متعلق طوفان بدتمیزی شروع ہوا کہ ہمارے پیر و مرشد، شہزادہ غوث اعظم کی توہین ہوگئی۔ مائیک لے لیا گیا، بات مکمل نہیں کرنے دی گئی اور بھی بہت کچھ۔۔

تینوں متعلقہ شخصیات (خطیب داتا دربار، مبشر احمد پروٹوکول آفیسر وزیر اعلیٰ پنجاب آفس، عامر اخلاق شامی مترجم شیخ عبدالعزیز صاحب) سے تفصیل کے ساتھ جب میں نے واقعے کی بابت معلوم کیا تو ایک ہی بات سامنے آئی کہ وقت کا لحاظ نہ رکھنا اور جلدی سے بدگمان ہوجانا اس سارے ہنگامے کا سبب ٹھہرا اور خطیب صاحب کے آنے پہ نعروں کی روایت اور اس سے بدگمان ہوکر فوراً نکل جانا اس پر انکے ردِ عمل اور کلماتِ تشکر کا انتظار نہ کرنا اور صورتحال سے یہ تاثر لینا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا یہ بھی ایک حد تک اس واقعے کی وجہ بنا۔

جبکہ گزشتہ برس کے ریکارڈ کو سامنے رکھا جائے اور انہی شیخ صاحب کی داتا دربار آمد اور خطاب کی تفصیلات جانی جائیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت کو کس قدر اعزاز و اکرام سے نوازا گیا، خطیب داتا دربار کے نیچے زمین پہ بیٹھنے کے باوجود صرف موصوف مہمان شیخ صاحب کو کرسی پہ بٹھایا گیا اور بعد والی ملاقات میں بوس و کنار کرتے دونوں شخصیات احتراماً ایک دوسرے کے لئے کس قدر خوبصورت جذبات رکھتی نظر آسکتی ہیں۔

اس بار بھی مفتی رمضان سیالوی صاحب اسی احترام اور عقیدت اور کلماتِ تحسین اور شکریہ کے الفاظ کے اظہار کے جذبے اور نیت سے اوپر تشریف لائے اور انہیں باقاعدہ کہا گیا کہ اب آپ اوپر آسکتے ہیں پھر پہنچنے پر دور سے نیاز مندانہ سلام کرتے ہوئے منبر پہ بیٹھ گئے اور اسی دوران شیخ صاحب اور انکے مریدین مسجد سے تشریف لے گئے۔

اس واقعے سے یہ مطلب اخذ کرنا کہ آپ مہمان نواز نہیں ہیں، گفتگو مکمل نہیں کرنے دی گئی، آپ نے جان بوجھ کر ایسا کروایا۔ یہ سب اسی نفسیات کا حصہ ہے جسکا ذکر پہلے کردیا گیا ہم کس قدر جلدباز اور بدگمان قوم بن چکے ہیں۔ شخصیات سے عقیدت میں اس قدر غلو کرنا کہ دوسری شخصیت کی عزت و پگڑی کو اچھال کر بیچ چوراہے پھوڑنے کو اپنا حق سمجھنا بھی ہمیں معیوب معلوم نہیں ہوتا۔ شخصیات کی توہین پر سیخ پا ہونا اور اس مقدس جگہ کو نظر انداز کردینا جہاں آپ یہ عمل سر انجام دے رہے ہیں تو مطلب مسجد اور درگاہ سے زیادہ معزز و محترم وہ شخصیت ہوئی نہ کہ خدا کا گھر اور اسکے صالح بندے کا در۔۔

آخر پہ یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ محکمہ کو چاہیے کہ میرٹ پہ منتخب ہونے والے سرکاری خطیب جو کہ اس ذمہ داری کے اہل اور مختص ہیں انہی کو اس منبر و محراب کے لئے موزوں سمجھا جائے اور کسی دوسرے محکمے یا بڑے سرکاری افسر کی مداخلت یا عقیدت کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے تعین ہونے والے امام و خطیب کو مذہبی امور کے اختیارات و مشاورت کے بعد طے پائے جانے والے اصولوں اور باقاعدہ تحریری معاہدوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ آئندہ اس طرح کا کوئی واقعہ نہ ہوپائے۔ وگرنہ ہر سرکاری افسر کی عقیدت کسی اور شخصیت سے منسلک ہوگی اور وہ آفیسر اپنے ذرائع و رابطوں کے استعمال سے دوسرے محکمے کے قوانین و ضوابط پسِ پشت کرتے ہوئے چلتا چلا جائے اور آنے والے اپنی مرضی و مطلب کی بات کرتے چلے جائیں تو کیا یہ اقدام اس قابل ہے کہ اس کا بوجھ محکمہ یا کوئی شخص اٹھا سکے؟

اگر کبھی کسی پروگرام اور کانفرنس وغیرہ میں مہمان کی ضرورت ہوتو بھی اسکا ایک اصولی اور نظام سے گزرتا ہوا طریقہ کار اور لائحہ عمل ہو پھر وہ چاہے زید ہو عمرو یا پھر بکر، سارے اسی نظم و نسق کے تحت ہی چلیں اور کسی کی عقیدت و اختیار کو اس اہم اور حساس مقام پہ حاوی نہ ہونے دیا جائے۔

وگرنہ کسی بھی واقعے سے جو کسی نے سمجھا اور جذبات کے تئیں جو اس کی سمجھ میں آیا وہ کردیا، خود ہی حاکم، خود ہی قاضی اور خود ہی جلاد۔۔ تو ایسے میں قانون، ڈسپلن اور نظم ونسق کا جو خون ہوتا ہے وہ تو ایک طرف، بلکہ ایسے ماحول اور ذہنیت میں نہ تو پُرامن معاشرے کا قیام ممکن ہے اور نہ ہی ریاست کی رِٹ کا دوام!

Check Also

Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben

By Professor Inam Ul Haq