Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arif Anis Malik/
  4. Sapiens

Sapiens

سیپینز

یوال نوح ہراری ایک ممتاز مورخ، فلسفی اور مصنف ہیں۔ وہ 1976ء میں اسرائیل میں پیدا ہوئے اور انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ہسٹری ڈیپارٹمنٹ میں بطور فیکلٹی ممبر کام کیا۔

ہراری کی دلچسپی بنیادی طور پر انسانیت کی تاریخ، مستقبل اور اس کے موجودہ حالات کے فلسفیانہ اور سائنسی تجزیے میں ہے۔ انہوں نے تاریخ، قرون وسطیٰ کی تاریخ اور عالمی مذاہب پر وسیع طور پر تحقیق کی ہے۔

کتاب لکھنے کی وجہ:

ہراری کا کہنا ہے کہ ان کی بنیادی خواہش یہ ہے کہ قارئین کو انسانیت کی کہانی کو ایک نئے اور وسیع تر تناظر میں سمجھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم انسان اپنی اصل کو، اپنے ارتقاء کے مراحل کو اور اس دنیا میں اپنے کردار کو سمجھیں۔

"سپیئنز" اس مقصد کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ کتاب انسانیت کی ایک مختصر تاریخ پیش کرتی ہے، لیکن اس کا مقصد صرف واقعات کی ترتیب بیان کرنا نہیں ہے۔ ہراری اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ کیسے ارتقاء، ماحولیات، ثقافت، اور سیاسی معیشت نے مل کر انسانیت کو اس نکتے تک پہنچایا ہے جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ وہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ مستقبل میں ہمارا کیا انتظار کر رہا ہے۔

کتاب کا پس منظر:

"سپیئنز" 2011ء میں عبرانی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اسے دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی اور اس کا ترجمہ 60 سے زائد زبانوں میں کیا گیا۔ اس کی کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ پیچیدہ موضوعات کو عام فہم انداز میں بیان کرتی ہے۔ ہراری سائنسی تحقیق، تاریخی واقعات، اور فلسفیانہ سوالات کو ایک ساتھ ملا کر ایک ایسی کہانی بناتا ہے جو قارئین کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہے۔

کتاب کی کامیابی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ہمیں موجودہ دور کے اہم ترین سوالوں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ ہم کس طرح کی دنیا میں رہتے ہیں؟ ہماری جگہ اس کائنات میں کیا ہے؟ اور ٹیکنالوجی کے تیز رفتار ارتقاء کے ساتھ انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا؟"سپیئنز" ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش نہیں کرتی، بلکہ یہ ہمیں ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

کتاب کا اثر:

"سپیئنز" نے دنیا بھر میں قارئین کو متاثر کیا ہے۔ اس نے انسانیت کی تاریخ اور مستقبل کے بارے میں نئے سرے سے سوچنے کے لیے تحریک پیدا کی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نے ان کے دنیا کو دیکھنے کے نقطہ نظر کو بدل دیا ہے۔

"سپیئنز" ایک ایسی کتاب ہے جس کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو انسان ہونے کا مطلب سمجھنا چاہتا ہے اور یہ جاننا چاہتا ہے کہ ہم اس کائنات میں کہاں کھڑے ہیں۔

سپیئنز: انسانیت کی مختصر تاریخ کے مرکزی موضوعات

انسانیت کا ظہور: یہ کتاب اس طرف روشنی ڈالتی ہے کہ انسانیت کے ارتقاء کے عمل کے نتیجے میں کیسے Homo Sapiens زمین پر سب سے غالب نسل بنے اور کیوں دوسری انسانی نسلیں غائب ہوگئیں۔ اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ہمارے آباء و اجداد دوسرے جانوروں سے ممتاز ہوئے اور کس طرح انہوں نے اپنے روزمرہ کے بقاء اور جدوجہد میں مزید مہارت اور پیچیدگی پیدا کر لی۔

فکری انقلاب: ہراری ابتدائی انسان کے ارتقاء میں ایک اہم ترین موڑ کو "فکری انقلاب" کا نام دیتے ہیں۔ اس انقلاب کا مرکزی نقطہ انسان کے ذہن کی صلاحیتوں میں اچانک اور بہت زیادہ اضافہ تھا۔ اس نے ہمیں استدلالی صلاحیت، مشکل مسائل کو حل کرنے کی قوت اور پیچیدہ زبان کی تشکیل کو ممکن بنایا۔

زرعی انقلاب: شکاری معاشروں سے بتدریج زرعی معاشروں کی طرف تبدیلی بھی انسانیت کے سفر کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ زرعی انقلاب سے مراد انسانوں کا جنگلوں اور خانہ بدوش طرزِ زندگی کو چھوڑ کر زمین سے وابستہ ہونا، مستقل بستیاں بسانا اور اپنی خوراک کا بندوبست بذات خود کرنے کا عمل ہے۔ ہراری وضاحت کرتے ہیں کہ زرعی انقلاب کے کیسے دوررس نتائج ہوئے جس نے معاشرتی ڈھانچے اور طاقت کے توازن کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔

دیومالائی کہانیوں کی تخلیق: انسان معاشرتی جانور ہے۔ بنیادی طور پر، بڑے گروہوں میں بقاء کی ہماری صلاحیت ان مشترکہ عقائد، قصوں اور کہانیوں پر ہی منحصر ہے جو ہمیں باندھتے ہیں۔ چاہے وہ مذہب ہو، قومی یکجہتی کا جذبہ ہو یا کسی بھی خاص نظریے سے تعلق ہو، یہ سب ہمیں باندھنے میں مرکزی کردار رکھتے ہیں۔

پيسے کی ایجاد: پیسے کی ایجاد کے ساتھ عالمی تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مکمل نظام تشکیل پایا۔ ہراری اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ زرعی انقلاب کے بعد کس طرح ایک قابل اعتماد اور عالمی پیمانے کے ذریعہ مبادلہ کی ضرورت نے پیسے کو جنم دیا۔

سلطنتوں کا عروج اور زوال: سلطنتوں کا بننا اور ٹوٹنا انسانی تاریخ کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس کتاب میں ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے کچھ معاشرے چھوٹی بستیوں سے وسیع سلطنتوں کی شکل کیسے اختیار کرتے ہیں اور پھر ان کے زوال کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ طاقت کی سیاست اور بڑے جغرافیوں کو کنٹرول میں رکھنے کے پیچھے کیسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں، ان کا بھی ہراری تجزیہ کرتے ہیں۔

مذہب کا پھیلاؤ: مذہب صدیوں سے انسانی زندگی کا ایک اہم ترین حصہ رہا ہے۔ مذہب نے ہمیں ایک اخلاقی مرکز دیا اور بہت بڑے پیمانے پر معاشرتی ضابطے مرتب کرنے میں مدد کی۔ ہراری اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح مذاہب وجود میں آئے، انہوں نے معاشروں کو کیسے متاثر کیا، اور ان کی انسانیت کے سفر میں کیا اہمیت رہی ہے۔

سائنسي انقلاب: جدید دنیا کا آغاز سائنسی انقلاب سے ہوتا ہے جہاں ہمارے پاس موجود علم اور اس کو جانچنے کے طریقوں نے دنیا کو سمجھنے کے ہمارے انداز کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ سائنس نے مشاہدے، تجربے، اور ریاضیاتی ماڈل کے استعمال پر بہت زیادہ زور دیا ہے، جس سے ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی ممکن ہوئی ہے۔

مستقبل کے چیلنجز: آخر میں، سپیئنز مستقبل کے ممکنہ راستوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ ہراری ٹیکنالوجی کے تیزی سے بدلتے ہوئے کردار، بائیو انجینئرنگ کی وسعتوں، اور Artificial Intelligence کے انسانیت پر طویل المدتی اثرات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

کتاب کے غیر معمولی پہلو!

1۔ دیومالائی کہانیاں ہماری طاقت کا مرکز ہیں (Myths are the pillars of our power)

ہراری کی دلیل یہ ہے کہ معاشروں کی بقا ہماری حقیقت سے زیادہ ان عقائد، افسانوں، اور اجتماعی تصورات پر منحصر ہوتی ہے جن پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ یہ اجتماعی عقائد، چاہے مذہبی ہوں، قومی ہوں یا معاشی، افراد کو مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے بڑے پیمانے پر اکٹھا ہونے میں مدد دیتے ہیں۔

مثالیں: قوم پرستی کا تصور، انسانی حقوق کے قوانین، محدود کمپنیوں کا نظام (Corporations)، اور یہاں تک کہ پیسے کی قدر بھی ان ہی کہانیوں کا حصہ ہیں جن پر ہم سب کا اجتماعی یقین انھیں حقیقت کا درجہ دیتا ہے۔

گہرائی: سیاسی نظام، معاشی تصورات اور سماجی ضابطے جن پر ہم روزمرہ کی زندگی میں انحصار کرتے ہیں، حقیقت میں ان بنیادی افسانوں سے وجود میں آتے ہیں۔ بغیر ان کے انسانی معاشرے ان بڑے پیمانوں پر کام نہیں کرسکتے جو جدید دور کی پہچان بن چکے ہیں۔

2۔ خوشحالی بے چینی کی جڑ ہے (Prosperity is the root of restlessness)

یہ عام تصور کہ مادی خوشحالی مطلق اطمینان کا باعث بنتی ہے، اسے ہراری چیلنج کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بنیادی ضروریات پوری ہونے لگتی ہیں تو انسان اس سے آگے اور کچھ نیا حاصل کرنے کی خواہش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ خواہشات لامحدود ہوتی ہیں اور ایک مسلسل چکر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔

مثالیں: آج کے ترقی یافتہ معاشروں میں مادی وسائل کی کثرت ہے پھر بھی لوگوں میں ڈپریشن، بے چینی اور عمومی عدم اطمینان عام ہے۔ ہراری کی یہ دلیل کہ ترقی اور بہتری کی جستجو فطری ہے، لیکن اس کا مقصد صرف راحت نہیں بلکہ لامحدود خواہشات کو پورا کرنا ہے، ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ انسان کے ارتقاء کا بنیادی سبب ہی ہماری اس مسلسل بے چینی اور ہمارے آس پاس کے ماحول کو بدلنے کی خواہش تھی۔ مادی بہتری اگرچہ آرام اور سہولیات فراہم کرتی ہے، لیکن وہ ہماری بے چینی، ہماری تلاش، اور مزید کے حصول کی خواہش کو ختم نہیں کر سکتی۔

3۔ تاریخ میں کوئی انصاف نہیں (There is no justice in history)

ہراری کہتے ہیں کہ تاریخ کا پہیہ زیادہ تر اتفاقی واقعات اور کسی کی پوزیشن مضبوط ہونے کی وجہ سے گھومتا رہتا ہے، نہ کہ کسی بلند و بالا انصاف کے تصور کے حساب سے چلتا ہے۔ کامیابی اور طاقت غالب آنے کے لیے ضروری نہیں کہ اخلاقیات اور انصاف سے بھی جڑے ہوں۔

مثالیں: سلطنتوں کا عروج و زوال، فاتحین کا تسلط، کمزور معاشروں کا استحصال، ان میں بہت سے واقعات کی بنیاد طاقت کے استعمال میں ہے، انصاف کے اصولوں میں نہیں۔ ہراری یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ تاریخ کو انصاف کی عینک سے دیکھنے کی خواہش اگرچہ فطری ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ دنیاوی طاقت کے پیمانے اخلاقی قوانین سے ماورا ہوتے ہیں۔

4۔ انسان ماحول کا قاتل ہے

انسان کی ارتقائی کامیابی باقی پرجاتیوں (Species) کے لیے تباہی ثابت ہوئی ہے۔ ماضی میں بڑے جانوروں اور پرجاتیوں کا وسیع پیمانے پر انقراض جو ہمارے ہاتھوں ہوا ہے، اسکی مثال پہلے نہیں ملتی۔ اب ہم آلودگی، جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلی جیسی وجوہات سے قدرتی وسائل کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مثالیں: آسٹریلیا کی قدیم میگا فاؤنا (بڑے جانوروں) کا انقراض، شمالی امریکہ کے بڑے جانوروں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت، یہ سب انسان کے مختلف براعظموں پر پھیلنے کے بعد ہوئے۔ جدید صنعتی دور میں بھی ہمارے اقدامات سے سینکڑوں پرجاتیوں کو خطرہ ہے۔ Homo Sapiens نے زمین کے وسائل کا غیر ذمہ دارانہ استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی تباہی برپا کی ہے جو ماحولیاتی نظام کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔

5۔ بہت سی انسانی طاقتیں اتفاقی ہیں (Many human superpowers are accidental)

ہراری کی یہ دلیل کہ زرعی انقلاب جیسا بنیادی واقعہ، جو انسانیت کے ارتقاء میں اہم ترین موڑ تھا، دراصل ایک ضرورت کے تحت وجود میں آیا۔ ہمارے اس تبدیلی کا مقصد ترقی نہیں تھا بلکہ وقت کی مجبوریوں سے نمٹنا تھا۔ زرعی انقلاب کسی خاص منصوبے کا حصہ نہیں تھا لیکن اس کے اثرات نے ہمیشہ کےلئے انسانیت کی سمت بدل دی۔

مثالیں: آگ کا استعمال، پہیے کی ایجاد، حتی کہ پیچیدہ زبان - یہ سب اچانک یا کسی خاص مقصد کی بجائے ضرورت اور حالات کے جبر سے وجود میں آئے۔

تاریخ کے بہت سے بڑے واقعات، جن کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو کسی منصوبہ بندی سے وجود میں لایا گیا، حقیقت میں اتفاق یا وقتی ضروریات کا نتیجہ تھے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جہاں ہم اپنے مستقبل کو شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں قسمت (یا اتفاق) بھی اپنا اثر رکھتا ہے۔ روحانی پہلو میں یقین رکھنے والے لوگ اسی کو امر ربی گردانتے ہیں۔

6۔ ہم اب بھی نہیں جانتے کہ ہم کیا چاہتے ہیں (We still don't know what we want)

سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے باوجود بنیادی طور پر ہم اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ ہمارا مستقبل کیسا ہونا چاہیئے۔ ہمیں ایسی لامحدود قوت مل رہی ہے جس کا استعمال کرنا ہمیں نہیں آتا۔ جین میں ایڈیٹنگ جیسی ٹیکنالوجیز کی مدد سے ہم انسان کے ارتقاء کو کنٹرول کرسکتے ہیں یا مصنوعی ذہانت (AI) ایجاد کرسکتے ہیں جسے روکنا ہمارے بس سے باہر ہوسکتا ہے۔

مثالیں: موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہم اتفاق تو کرتے ہیں لیکن عملی حل کے لیے کوئی حقیقی اتحاد نہیں بن سکا۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت کے بے لگام استعمال کے خطرات پر عالمی قوانین بنانے کی کوشش میں بھی بہت مشکلات ہیں، کیونکہ مختلف حصوں کی ترجیحات اور مقاصد آپس میں متضاد ہیں۔

ہم ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے اس زمانے میں ہیں جہاں ہمارے پاس موجود قوت اور اس کے استعمال کے لیے اخلاقی اور معاشرتی رہنما اصول ابھی تک بننے کے مراحل میں ہیں۔ مستقبل ہمارے سامنے ہے، لیکن ہمیں یہ طے کرنا باقی ہے کہ اس میں ہم کیا بننا چاہتے ہیں۔

7۔ خوشی اور معنی میں فرق ہے (Happiness is different from meaning)

انسان صرف مادی آسائش اور ذہنی خوشی تک محدود نہیں۔ ہم اس دنیا میں ایک مقصد، ایک معنی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہراری اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ صرف خوشی کی تلاش ایک سطحی مقصد ہے، اور حقیقی اطمینان تب حاصل ہوتا ہے جب زندگی کا کچھ مقصد اور معنی ہوں۔

مثالیں: بہت سے ایسے افراد جو اوسط سے بہت زیادہ مادی دولت رکھتے ہیں، وہ اکثر بے معنی اور خالی زندگی جینے کا احساس رکھتے ہیں۔ اسکے برعکس وہ لوگ جو کسی مقصد، کسی مشن، یا کسی بڑے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں اپنی زندگی گزارتے ہیں اکثر سکون اور اطمینان کی زندگی پاتے ہیں۔ جدید صنعتی معاشروں نے بنیادی ضروریاتِ زندگی عام انسان تک پہنچانے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے۔ لیکن خوشحالی اور بنیادی آسائش میں فرق ہے۔ یہ فرق معنی اور مقصد کو تلاش کرنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

یہ کتاب ہمیں ان سوچوں پر مجبور کرتی ہے جن کو عام طور پر ہم نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اگر آپ انسانی تاریخ کے سفر، ہمارے فیصلوں کے پس منظر کی قوت اور مستقبل کی سمت پر ایک غیرمعمولی نقطہ نظر تلاش کرنا چاہتے ہیں، تو Sapiens ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے کافی تنازعات بھی اٹھے جو کسی بھی اچھی کتاب پر آٹھ سکتے ہیں، تاہم یہ پڑھنے والے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

Check Also

Wazir e Aala Punjab Aur Police Uniform

By Prof. Riffat Mazhar