Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sanober Nazir/
  4. Babo

Babo

ببو

وہ پچھلے پندرہ منٹ سے میری گود میں اپنا سر رکھے سکون سے لیٹا تھا۔ میں آہستہ آہستہ اسے سہلا رہی تھی۔ اسکی آنکھیں ابھی تک نم تھیں۔ آج پہلی بار میں اسکی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ قدرتی گہرے سیاہ کاجل سے رنگی ترچھی آنکھیں اسکے چہرے پر نمایاں تھیں۔ میں آج ایک ماہ بعد انگلینڈ سے واپس آئی تو اس نے میرا والہانہ استقبال کیا۔ کبھی ادھر بھاگے کبھی ادھر۔ بار بار مجھے اچھل اچھل کر پیار کرے۔ اپنے ننھے لیکن مضبوط پیروں کے وزن سے مجھے زمین پر چت کر دے۔ ایک عجیب پیار بھری دھینگا مشتی جاری رہی۔ اس کا سینہ دھوکنی کی طرح چل رہا تھا۔

ریلیکس بے بی۔ کام ڈاؤن۔۔ آئی ایم بیک ناؤ۔ میں سہلاتے ہوئے اس سے ہمیشہ باتیں کرتی ہوں۔

اب تھک کر وہ اپنا سر میری گود میں رکھے پرسکون لگ رہا تھا۔

ببو دو ہزار چودہ میں ہمارے گھر آیا تھا۔ بلکہ ہمارے ایک دوست نے یہ خوبصورت تحفہ ہمیں دیا تھا۔ یہ ببو کا تیسرا گھر تھا۔ پہلا انہی دوست کا جہاں اسکے ماں باپ نے اسے تین اور بچوں سمیت پیدا کیا تھا۔ دوسرے گھر میں وہ چند ماہ رہ کر نامعلوم وجوہ کی بنا پر واپس ہمارے دوست کے گھر آگیا تھا اور اب بالاخر وہ ہمارے ساتھ تھا۔ ببو کو ہم اس رات پہلی بار جب اپنے گھر لائے تو میں نے اسے کھانا دیا جو اس نے دیکھنا تک گوارا نہیں کیا۔ سوچا نیا گھر ہے کل تک عادی ہو جائے گا۔ پھر اسکا گدا پورچ میں ہی بچھا کر میں بھی کمرے میں آکر سونے کے لئے لیٹ گئی۔ پر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ پوری رات کروٹیں بدل کر گزاری۔ جیسے ہی صبح اذان کی آواز آئی تو جھٹ سے اٹھی اور جا کر دروازہ کھولا تو ببو چبوترے پر دروازے سے لگ کر بیٹھا تھا اور رسی گلے میں بندھی ہوئی تھی۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے اپنا سر اٹھا کر محبت سے لبریز التجائی نظروں سے مجھے دیکھا۔ اسکی آنکھیں قدرتی کاجل سے سجی ہوئی تھیں۔ نہ جانے وہ کیسا اور کون سا لمحہ تھا کہ میں آج گیارہ سال بعد بھی وہ نظریں نہیں بھلا پاتی ہوں۔ ببو کی آنکھوں میں ایک درخواست تھی جو اس صبح میں نے نہ دیکھی ہوتی تو شاید دیگر جانوروں کی آنکھوں میں بسی، بے بسی بھی زندگی بھر نہ دیکھ پاتی۔

اسی لمحے ببو کو رسی سے آزاد کیا اور دروازہ پاٹو پاٹ کھول کر گھر کے ایک اور مکین کا کھلے دل سے سواگت کیا۔

ببو شاید اسی انتظار میں تھا فورا خوشی سے ہمک کر اچھل کر لاونج سے ہوتا ہوا کبھی ایک کمرے تو کبھی دوسرے کمرے میں دوڑتا جاتا، سونگھتا جاتا اور ٹانگ اٹھا کر جگہ جگہ کارنامے انجام دیتا جاتا۔

ارے یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں پیچھے پیچھے پونچھے سے اسکی کاروائیاں صاف کرتی جاتی اور وہ مزید ادھر ادھر دھار مار دیتا۔

نہیں بھئی اس طرح تو معاملہ زیادہ دیر نہیں چل پائے گا۔ اسے باہر ہی رکھنا پڑے گا۔

لیکن پھر وہی کاجل بھری معصوم سی آنکھیں میری نظروں سے ٹکرائیں تو سوچا کہ جب میں تین بچیوں کی پرورش اور تربیت کر سکتی ہوں یہ تو پھر ایک بے زبان جانور ہے۔ بے شک سات آٹھ ماہ کا ہو چکا ہے پھر بھی ابھی وقت ہے شاید ان ساری کارستانیوں سے ہی اجتناب برتنا سیکھ جائے۔

گھر میں گند نہ پھیلائے، بس یہی سوچ کر مختلف ڈرانے دھمکانے کے ہتھکنڈے آزمانے شروع کیے۔ آخر ایک کارگر ثابت ہوا۔ جہاں ببو ٹانگ اٹھاتا میں فورا چپل لے کر دوڑتی اور اسے باہر لان میں بھیج کر دروازہ کچھ دیر کے لئے بند کر دیتی۔

غالبا دس بارہ دن میں ببو ایسی کاروائی سرزد ہونے سے پہلے ہی باہر دوڑ لگانے لگا۔ حتی کہ آدھی رات کو بھی اگر اسے رفع حاجت کی ضرورت ہو تو وہ ہمیں جگانے کی خاطر دروازے کو اپنے اگلے پیروں اور ناخنوں سے اتنی زور سے کھروچتا ہے کہ نیند سے آنکھ کھل جائے۔

ببو"الفا"ہونے کی وجہ سے جسامت میں اپنے اماں ابا اور بہن بھائیوں سے بڑا پیدا ہوا تھا۔ اس لئے نخریلا بھی خوب تھا۔ اسے اندازہ ہے کہ سفید بالوں میں سیاہ کاجل سے بھری ترچھی آنکھیں اور کالی تھوتھنی اور فوارے کی طرح اوپر کو اٹھی دم اسے کتنا دلکش اور حسین بناتی ہے۔ ببو گھر میں سب سے زیادہ میرے ساتھ لاڈ کرتا ہے۔

ناظر کو گھر کے سربراہ کے طور عزت بھی دیتا ہے اور پیار بھی۔

تینوں بچیوں سے بھی شغل ضرور لگاتا ہے پر ایک حد بھی مقرر کر رکھی ہے اس نے۔ لیکن جب جب بچیاں تعلیم کے لئے بیرون ملگ گئیں ببو بار بار ان کے ویران کمروں میں جاتا ان کی متعلقہ چیزوں کو سونگھتا اور پہروں اداس بیٹھ کر ان سے اپنی لگاوٹ کا اظہار کرتا۔

ببو کے گھر آنے کے کوئی تین ماہ بعد ایسا واقعہ ہوا کہ لگا کہ ببو پچھلے دو گھروں کی طرح ہمارے گھر سے بھی نکالا جائے گا۔

اماں۔۔ اماں۔۔ بڑی بیٹی کے رونے کی آواز اور دونوں چھوٹیوں کی چیخ وپکار نے مجھے اپنے کمرے سے دوڑ لگانے پر مجبور کردیا۔

کیا ہوا؟ میں خوفزدہ سی تھی۔

کمرے میں بڑی بیٹی کی ٹانگ پر دانتوں کے لال نشان نمایاں تھے اور وہ درد اور خوف سے بے ساختہ روئے چلے جارہی تھی۔ ببو دور دبکا بیٹھا تھا۔

بیٹی اسکے ساتھ مستی کر رہی تھی تب ہی اس نے اپنے دانت اسکی ٹانگ میں پیوست کر دیے تھے۔

اپنی بچی کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ببو پر شدید غصہ آیا اور پہلی بار چپل سے اسے ڈرایا ہی نہیں بلکہ دو لگائی بھی۔

ببو ویکسینیٹڈ تھا پھر بھی بیٹی کو ڈاکٹر کو دکھایا اور اینٹی بایوٹکس کا کورس بھی کروایا۔

اب سب سر جوڑ کر بیٹھے کہ ببو کا کرنا کیا ہے۔

میں نے گوگل کیا کہ کیوں ببو نے یہ حرکت کی اور اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔

تب معلوم چلا کہ کتے بھی بائی پولر ہوتے ہیں۔

دوسری وجہ بچپن میں اسکی ٹانگ اور کان کا ٹوٹنا تھا۔

ببو کے پرانے کئیر ٹیکرنے اسکے کان کو ایسا مڑوڑا کہ اسکی نازک ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ ٹانگ بھی کسی کی گود سے گر کر ٹوٹی تھی۔ سو ببو عام کتوں کی نسبت ہر ایک سے پیار کروانا اور سہلوانا قطعی پسند نہیں کرتا کہ اسے کسی پر بھروسہ نہیں سوائے چند ایک کے۔۔ ببو کو دیس نکالا کے بجائے جتنا ممکن ہوا سمجھنے اور گھر والوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔

اس کی عادتوں کے حساب سے ہم سب نے خود کو ایڈجسٹ بھی کیا اور کچھ اسے بھی سرزش کی۔

ببو جتنا مشکل بچہ تھا اتنا ہی سمجھدار بھی۔ وہ میرے دل سے قریب لوگوں کو بھانپنے میں دیر نہیں لگاتا اور ان کے ساتھ اس کا رویہ چند ہی ملاقات کے بعد دوستانہ ہوجاتا ہے۔

وہ دیکھو گاڑی میں کتا جارہا ہے۔ کتنا خوبصورت ہے، کیسے مزے سے گردن نکال کر دیکھ رہا ہے۔۔ ساتھ گزرتی تمام گاڑیوں کے مسافر چاہے وہ بچے ہو یا بڑے ببو کو گاڑی کی کھڑکی سے منڈی باہر نکالے دیکھ کر ایسے ہی جملے ادا کرتے سنائی دیتے ہیں۔

گاڑی کی سواری ببو کا من پسند مشغلہ ہے۔ جہاں گاڑی کی چابی اٹھائی ببو دم ہلاتا دوڑتا آجاتا ہے اور روانگی سے پہلے کی بھرپور انگڑائیاں لینا شروع کریتا ہے۔

پھر بندہ کیسے نہ لے کر جائے بھلا۔ سو علاقے کی مارکیٹ تک جانا ہو یا اے ٹی ایم مشین، دوستوں کے گھر دعوت ہو یا میری امی کی یاترا، ببو ہمہ وقت ہر جگہ جانے کو تیار۔ دوستوں نے بھی ببو کو ہمارے خاندان کا ایک حصہ تسلیم کر لیا ہے۔

پورے سیکٹر میں ببو اور مجھے لوگ ببو والی باجی یا ببو والی آنٹی کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں کہ وہ ہمیشہ گاڑی میں میرے ساتھ آتا جاتا ہے۔ جب بچیاں اسکول میں زیر تعلیم تھیں تو میں ہی انھیں پک اور ڈراپ کیا کرتی تھی اور ببو میرے ساتھ انھیں لینے چھوڑنے جایا کرتا تھا۔ خاص کر صبح سویرے جب سوتے جاگتے اور منہ بسورتے ہر عمر کے بچوں کے چہروں پر ببو کو دیکھ کر خوشی اور تازگی کی جو چمک ابھر آتی وہ بڑی باعث تسکین ہوا کرتی تھی۔ بچے اپنی گاڑیوں یا وینوں سے چلا کر پوچھتے۔۔ آنٹی اسکا نام کیا ہے؟

ببو۔۔ میں بھی خوب زور سے جواب دیتی۔

بیشتر وقت گاڑی میں ببو ہی میرا ہم سفر ہوتا ہے تو لازمی طور پر وہی میرے ساتھ والی سیٹ پر براجمان رہتا ہے لیکن میرے ان دوستوں کے لئے وہ سیٹ بلاتردد خالی کردیتا ہے جنھیں میں اپنے ساتھ ہی بٹھانا پسند کرتی ہوں۔ چھوٹے سے دماغ کی سمجھداری ایسی کہ میری عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے۔

کون کہتا ہے کہ جانوروں کے جذبات و احساسات نہیں ہوتے؟ افسردگی، سرشاری، ندامت، مسرت، اکتاہٹ اور غصہ سب کچھ ان بے زبانوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ یہ ہم انسان ہی ایسی مخلوق ہیں جن میں عقل و شعور ہونے کے باوجود محسوس کرنے اور دیکھنے کی حس ناپید ہوتی جارہی ہے۔ جو لوگ جانوروں سے پیار نہیں کر سکتے وہ بھلا انسانوں سے کیسے محبت کا دعوی کر سکتے ہیں۔

چلو ٹھیک ہے۔۔ چلو کھانا کھا لو۔۔ چلو پھر بات کرتے ہیں۔۔ جس جملے میں"چلو" آجائے تو ببو صاحب کی دم گاڑی کے وائپر کی طرح تیزی سےدائیں بائیں ہلنی شروع ہوجاتی ہے یعنی اب "چلو" بھی انتظار کس بات کا ہے۔

ببو جب سے گھر کا ایک فرد بنا ہے تب سے واک کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ ہمارے گھر کے آس پاس کئی پارک ہیں۔ پہلے ببو کو ایک نسبتا بڑے پارک میں لے جایا کرتی تھی وہاں بھونکنے کی ذمہ داری ببو کے بجائے چند حضرات نے اٹھا لی تھی۔ آئے دن مجھے ببو کے ساتھ دیکھ کر ان کے منہ سے جھاگ اڑنے لگتی۔۔ اس نجس جانور کو پارک میں لانا منع ہے۔ آپ کیوں لے آتی ہیں اور پھر کتوں کی ناپاکی اور خود کی پاکبازی پر بھاشن دینا شروع کر دیتے۔۔

ایک دن برداشت سے باہر ہوا تو میں نے بھی خوب کھری کھری سنائی۔

جناب کتے کو پارک میں لانے کی سزا تو تین ہزار روپے جرمانہ ہے۔ جب کہ کسی عورت کو ہراساں کرنے کی سزا تین سال قید ہے۔

وہ حضرت اس بات پر دم دبا کر بھاگے۔

اسکے بعد وہ نظر بھی آئے تو، نظرانداز کرکے کنی کترا کر نکل لیے۔

میرا اس پارک سے دل ہی کھٹا ہوگیا تھا۔ ایک روز گھر کے سامنے ہی ایک چھوٹے پارک میں ببو کو لے گئی۔ وہاں واک کرنے والے دوستانہ رویے کے حامل افراد تھے سو آج دس سال سے اوپر ہو گئے ہیں میں ببو کو صبح و شام بلاناغہ وہیں لے جاتی ہوں۔

آپ وہی ہیں نا جو اپنے کتے کو ایک بڑے لیبراڈور سے بچانے کے لئے بنا سوچے سمجھے گیلی مٹی میں بیٹھ گئی تھیں؟ واک پر روز نظر آنے والے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا۔

مجھے ایکدم وہ پرانا واقعہ یاد آگیا جب ببو صرف دو سال کا تھا۔

جی بالکل۔۔ لیکن یہ تو کوئی سات سال پرانی بات ہے۔

جی جی۔۔ بھئی آپ نے تو اپنے کتے کو ایسے بے ساختہ بچایا تھا جیسے مرغی بلی سے اپنے چوزوں کو بچانے کے لئے پروں میں چھپاتی ہے۔ اپنے گھر جا کر میں نے سب کو یہ قصہ سنایا تھا۔

وہ صاحب بولے گئے۔۔ دراصل ہم پچھلے کئی سال سے دبئی میں تھے ابھی کوئی دو ماہ پہلے واپس آئے۔ آپ کو دیکھا تو وہ واقعہ یاد آگیا۔ اب تو یہ کتا بھی بڑا ہوگیا ہے۔

کتا نہیں اسکا نام ببو ہے۔ میں نے زور دے کر کہا۔

بس اسکے بعد پارک میں ببو کو کسی نے کتا نہیں پکارا۔

ایک سال تو ببو کو لیش کرکے پارک لے جایا کرتی تھی۔ رفتہ رفتہ اسے ان لیش کرنے لگی۔ اب دس سال سے ببو بغیر لیش کے ہر جگہ جاتا ہے۔ پہلے پہل دوڑتے لوگوں پر بھونکتا تھا۔

سنیں جب سامنے سے ببو آرہا ہو اور آپ تیز رفتاری سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں تو اسے لگتا ہے کہ آپ کوئی حملہ آور ہیں۔ اس لئے کوشش کریں کہ اگر دوڑتے ہوئے ببو کا سامنا ہو تو دوڑنے کے بجائے واک کر لیں یا ٹریک سے ہٹ کر گھاس پر دوڑ کر آگے نکل جائیں۔

میں دوڑتے ہوئے حضرات کو فری ایڈوائس دیتی تو میری بیٹی جو اکثر میرے ساتھ شروع میں واک پر جایا کرتی تھی، حیرانی سے مجھے دیکھے جاتی۔

واؤؤ۔۔ اماں یہ ٹریک انسانوں کے لئے ہے اور آپ۔۔ ہاؤ اسٹرینج۔۔

انسان نے ہزار ہا سال سے دنیا میں بسنے والے جانوروں چرند پرند پر زندگی تنگ کرکے رکھ دی ہے۔ آزاد پھرنے، اڑنے اور رہنے والی مخلوق کو ہم نے ترقی کے نام پر محصور و مجبور کر دیا ہے۔

ببو کے زندگی میں آنے کے بعد گلی میں کھانے پانی کے لئے ترستے آوارہ پھرتے کتوں، گاڑیوں کے نیچے کچل جانے والی بلیوں، منوں سامان کے بوجھ تلے دب جانے والے گدھوں کی حالت زار اب واضح دکھائی دینے لگی ہے جو شاید پہلے میں دیکھنے سے محروم تھی۔

یہ جانتی ہوں کہ ببو جیسے مشکل بچے کا کسی اور گھر میں رہنا آسان نہ ہوتا لیکن ببو کی گھر میں شمولیت رونق کا ایسا سبب بنی ہے کہ یہ سوچنا بھی اب محال لگتا ہے کہ ببو کے بغیر زندگی کیسے بسر ہو سکتی ہے۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو کبھی بڑے نہیں ہوتے۔ بہت کچھ کمپرومائز کرنا پڑتا ہے چاہے کہیں گھومنے پھرنے جانا ہو، شاپنگ کرنی ہو، ہوٹلنگ کا شوق چرایا ہو یا کراچی کا سفر درپیش ہو۔ ہر وہ چیز محدود کردی جہاں ببو کو لے جانا ممنوع ہے۔

میرا حسین ترین، میرا پیارا چاند، چنوں منوں، گڈو بچہ، جانو بچہ کہہ کر پکارو تو ببو ایک لمحہ کی تاخیر کیے بنا فورا سامنے دم ہلاتا آ کھڑا ہوتا ہے جیسے اس بات پر اسے کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ اعزازی جملے صرف اس کے لئے ہی ادا کیے جانے کے قابل ہیں۔

ببو اب گیارہ سال کا ہے۔ کتے کا ایک دن انسانی سات دن کے برابر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب اب وہ 76 سال کا ہے۔ ایک وقت تھا جب ببو جوانی سے بھرپور تھا۔ پارک لے جاتے تو لیش کو ایسی طاقت سے کھنچتا کہ ہمیں بھی ساتھ دوڑنا پڑتا۔ تتلیوں چڑیوں کووں کے پیچھے ایسے بھاگتا جیسے انہیں ابھی لپک لے گا۔

آج ببو پہلے کی طرح جوان اور چاک و چوبند نہیں رہا ہے۔ اب وہ پارک کا آدھا چکر بھی لگا لے تو بڑی بات لگتی ہے۔ شاذو نادر ہی بھاگتا ہے۔ چلنے میں بھی آہستگی آگئی ہے۔ پٹاخوں، طوفانی بارش، بجلی کی کڑک اسے آج بھی سہما دیتی ہے اور وہ میرے وجود میں ایسے چھپ جاتا ہے کہ وہی اس کا نجات دہندہ ہو۔

پہلے کی طرح آج بھی اس کا وجود ہمیں اچھے برے حالات میں ہنسانے اور رونے کے لئے کندھے فراہم کرتا ہے۔ میں بلاجھجھک اس سے اپنے دل کی وہ باتیں بھی کر لیتی ہوں جو شاید خود سے بھی چھپانا مقصد ہوتا ہے۔ کہ جانتی ہوں کہ یہ مجھے جج نہیں کرے گا۔

لوگ ان بے زبانوں کے بارے میں ہزار باتیں کریں مگر میں جانتی ہوں کہ جب سے ببو ہمارے گھر آیا ہے فتنہ پرور لوگ کچھ ہی عرصے میں دور اور فرشتہ صفت دوست احباب ہماری زندگی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔

بہ شُکریہ: وی نیوز

Check Also

Jamaat e Islami Kya Soch Rahi Hai? (2)

By Amir Khakwani