Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Dard Dil Ki Qeemat

Dard Dil Ki Qeemat

درد دل کی قیمت

جب بھی کوئی فصل پک کر تیار ہوتی ہے تو کئی لوگ اپنے میلوں تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ جھومتی ہوئی گندم کی بالیوں یا چاول کے دانوں سے بھرے سٹوں کی تصویریں لگاتے ہیں۔ اس وقت دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ اس اناج میں خیر و برکت ڈالے زمینداروں کو ان کی محنت کا پھل ملے۔

چک رامداس میں ہمارے خاندان کے لوگوں کے پاس بھی وسیع رقبے ہیں اور ماشااللہ فصلوں کے موقع پر گھر اناج سے بھر جاتے ہیں۔ زمینداروں کے ساتھ ساتھ مزارعے اور محنت کش لوگ بھی سال بھر کے لئے پیٹ کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ بچپن سے گاؤں جاتے آتے اپنی پھوپھی اور دیگر رشتہ داروں کے ہاں ہم یہ سب دیکھا کرتے جب کہ دادا جی کے ہاں اتنی بہتات نہ ہوتی بس مناسب سی فصل ہوتی۔

ہمیں بڑی حیرت ہوتی کہ ایسا کیوں ہے دادا جی بھی اسی خاندان کا حصہ ہیں تو ان کے پاس میلوں تک پھیلے کھیت کیوں نہیں ہیں۔ جب بھی ماں جی (دادی جی) ہمارے پاس شہر آتیں تو میں ان کی گود میں سر رکھ کر پرانے قصے سنا کرتی اس میں مجھے بہت مزہ آتا وہ اپنے بچپن جوانی کے قصے سناتیں۔ اپنے گاؤں میں اہل حدیث مسلک کے بہت بڑے سالانہ اجتماع کا احوال اور بہت سی باتیں بتایا کرتیں اور میں بڑے انہماک سے سنا کرتی۔

ایک بار میں نے یونہی ماں جی کی گود میں لیٹے لیٹے پوچھا کہ جیسے سب لوگوں کے کھیت بہت بڑے بڑے ہیں اور بہت ذیادہ اناج ان کے گھروں میں آتا ہے ہمارے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہے تب ماں جی نے جو کہانی مجھے سنائی اس کی سمجھ مجھے اس وقت تو بہت نہ آئی مگر جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی تو سمجھ آتی گئی۔ میں نے یہ کہانی ماں جی سے اتنی بار سنی کہ مجھے ازبر ہوگئی ساتھ ہی میری حیرت بھی بڑھتی گئی کہ وہ کیا وقت تھا اور کیا لوگ تھے جو دوسروں کے لئے اتنی بڑی بڑی قربانیاں دے دیا کرتے تھے۔

بابا جی (دادا جان) تین پشتوں سے اکلوتے چلے آرہے تھے یعنی ان کے دادا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور بابا جی کے والد بھی ایک ہی بیٹے تھے۔ آگے باباجی بھی اکیلے ہی تھے ان کے دادا گاؤں کے کسی آدمی کے ساتھ اس کے تھانے کچہری کے کام کے سلسلے میں شہر گئے لیکن واپس گھر نہیں آئے۔ کئی دن انتظار کے بعد ان کو ڈھونڈنے کے لئے ان کا بیٹا یعنی بابا جی کے والد گئے اور وہ بھی دوبارہ کبھی گھر واپس نہ آئے۔ جانے کہاں چلے گئے۔ تلاش کے باوجود کہیں نہ ملے جانے انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا غالب امکان یہی تھا کہ زمین جائیداد کے لالچ میں کسی نے ان دونوں کو جان سے مار ڈالا۔ ان دنوں بابا جی کی پیدائش ہونے والی تھی آنے والے بچے کی جان کو بھی خطرے کے ڈر سے ان کی دادی نے چوری چھپے اپنی بہو کو دور دراز کے گاؤں میں بہو کی بہن کے گھر بھیج دیا۔ بابا جی کی پیدائش وہیں ہوئی اس کی خبر گاؤں میں کسی کو کانوں کان نہ ہونے دی گئی۔

یہی مشہور کر دیا گیا کہ بہو اپنے میکے چلی گئی ہے بچے کی پرورش کے لئے کافی روپیہ پیسہ اور سونے کے زیورات بہو کو دے دئیے۔ زمین جائداد کے کاغذات بھی ان کے حوالے کردئیے۔ پیچھے سے کارندوں اور منشیوں نے زمینوں کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور مختلف اخراجات کے بہانے بوڑھی ناخواندہ خاتون کے انگوٹھے لگوا لگوا کر کافی زمین ہتھیا لی۔ ان کی وفات کے بعد تو مزارعے منشی اور کارندے ہی قابض ہوگئے۔

بابا جی اپنی خالہ کے گھر پرورش پاتے رہے پھر ان کی والدہ مکیریاں شہر کے قریبی گاؤں خانپور میں اپنی دوسری بہن کے گھر چلی گئیں اور اپنے بیٹے کو سکول میں داخل کرایا۔ اس وقت کے رواج کے مطابق بابا جی نے پہلے منشی فاضل کیا اور بعد میں میٹرک کرلیا۔ مسلمان شرفا میں اس وقت یہ تعلیم بڑی معقول مانی جاتی تھی پڑھ لکھ کر بابا جی نے قانونی لڑائی لڑ کر مزارعوں منشیوں اور کارندوں سے اپنی زمین واگذار کرائی، چونکہ تین پشتوں سے اکلوتے تھے اس لئے تقسیم در تقسیم کے عمل سے محفوظ رہ کر ان کی جائیداد خاندان میں سب سے ذیادہ تھی۔

انہی دنوں محکمہ امداد باہمی کے تحت قائم ہونے والے بنک میں بابا جی کی ملازمت ہوگئی اور مہتمم یعنی انتظام کرنے والا عہدہ مل گیا۔ ماں جی اس وقت کے بابا جی کے بڑے ٹھاٹ باٹھ بتایا کرتی تھیں۔ جنگ عظیم دوم کے دوران اشیائے ضروریہ کی قلت کے پیش نظر انگریز حکومت نے ہر چیز کی راشن بندی کردی حتی کہ کپڑا غلہ گڑ شکر اور بہت سی ضرورت کی چیزیں امداد باہمی کے بنک کے ذریعے ملنے لگیں۔ باباجی بنک کے مہتمم ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کے انچارج تھے ان کے گاؤں اور آس پاس کے دیہات سے کسان فصل آنے تک کے وعدے پر ادھار ضرورت کا سامان لیتے گئے۔ بابا جی کی غلطی یہ ہوئی کہ کسی سے کوئی گارنٹی لئے بغیر محض زبانی کلامی وعدوں پر سامان دیتے گئے۔ ایک بھاری رقم گاؤں والوں کی طرف واجب الادا ہوگئی فصل آنے کے بعد بھی بہت کم لوگوں نے اپنے ذمے ادھار کی رقم لوٹائی اکثریت نے پھر وعدۂ فردا پر ٹال دیا بابا جی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس دلدل میں پھنس رہے ہیں۔

ایک دن بنک میں اطلاع آئی کہ انگریز افسر اپنی ٹیم کے ساتھ سالانہ آڈٹ کرنے آرہا ہے اب تو بابا جی کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی بطور مہتمم گاؤں والوں کو ادھار دی گئی چیزوں کی مکمل ذمہ داری ان پر تھی اور لوگوں نے اپنے ذمے کا قرض واپس نہیں کیا تھا۔ باباجی نے گھر گھر جاکر لوگوں سے ادھار واپس کرنے کا تقاضا کیا مگر بہت کم لوگوں نے ان کی بات سنی ذیادہ تر لوگ مکر گئے کسی سے لکھت پڑھت تو ہوئی نہ تھی ان لوگوں کا بگاڑ بھی کیا سکتے تھے۔ یہ بڑی پریشان کن صورت حال تھی بنک کی رقم پوری کرنا بابا جی کی ذمہ داری تھی وہ یہ بات کسی صورت گوارہ نہیں کر سکتے تھے کہ ان کی نیک نامی پر حرف آئے اس سے پہلے کہ آڈٹ ٹیم کی آمد کی تاریخ طے ہوتی انہوں نے ایک فیصلہ کر لیا اور اپنی زمین فروخت کرنے کا اعلان کردیا۔

کچھ تو اس زمانے میں زمین کی قیمت بھی ذیادہ نہیں ہوتی تھی دوسرا لوگ کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے میں بھی ہچکچاتے نہیں بنک کے قرض کی بھاری رقم کی ادائیگی کے لئے گاؤں کی زمین کا بڑا حصہ فروخت کیا اور آڈٹ ٹیم کے آنے سے پہلے رقم بنک کے خزانے میں جمع کرا دی گئی۔ بابا جی کی ملکیت میں شہری اراضی کا کچھ رقبہ رہ گیا اور تھوڑی بہت زمین گاؤں میں باقی بچی پاکستان آنے کے بعد گاؤں اور شہر کی زمین کے کلیم داخل کئے گئے تو چک رامداس میں دیہی زمین کے بدلے اصل کلیم سے کافی کم زمین الاٹ ہوئی اور شہری زمین کے بدلے گوجرانوالہ شہر میں جو زمین الاٹ ہوئی اس کا آدھا حصہ پانی کے جوہڑ کی شکل میں تھا۔ جب گوجرانوالہ کا ماڈل ٹاؤن بننے کا منصوبہ بنا تو وہ زمین اس سکیم میں آگئی جس کا بہت کم معاوضہ دیا گیا۔

یہ کہانی تھی ہمارے بابا جی کی جن کی ہمدردی اور رحم دلی نے انہیں اپنی جائیداد سے ہی محروم کردیا خاندان میں سب سے ذیادہ جائیداد رکھنے والے سب سے پیچھے رہ گئے۔

Check Also

Terha Laga Hai Qat, Qalam e Sarnavisht Ko

By Nasir Abbas Nayyar