1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Roohaniyat, Istidraj, Qurb e Elahi

Roohaniyat, Istidraj, Qurb e Elahi

روحانیت، استدراج، قرب الٰہی

تصوف اور روحانیت کے حوالے سے حالیہ کالموں کی سیریز سی بن گئی ہے، اس سلسلے میں ایک آد ھ اورآنا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اس موضوع میں قارئین کی خاصی تعداد دلچسپی رکھتی ہے۔ لوگ سوالات بھی پوچھ رہے، اپنا فیڈبیک بھی دیتے ہیں۔ اگلے روز صحافی، کالم نگاربرادرم افتخار گیلانی کا واٹس ایپ میسج آیا۔ انہوں نے اس سیریز کی ستائش کے ساتھ یہ نکتہ اٹھایا کہ روحانیت کے واقعات صرف اسلام تک محدود نہیں ہیں، یہ لگتا ہے اس علم کا حصہ ہے جس کی ابھی تک وضاحت نہیں ہوسکی (branch of unexplained knowledge)۔ گیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھارت کے مشہور کمبھ میلے کو دو بار کور کیا، یہ ہر بارہ برس کے بعد الہ باد کے نزدیک ایسی جگہ پر ہوتا ہے جہاں دریائے گنگا اور جمنا آپس میں ملتے ہیں۔ گیلانی صاحب کے مطابق وہ وہاں کئی سادھووں کے کمالات دیکھ کر حیران رہ گئے۔

یہ بات درست ہے، خرق عادت یا خلاف معمول کمالات (Extra ordinary Things)کا ظہور یا مشاہدہ صرف اسلام یا مسلمان صوفیوں میں ہی نہیں۔ بعض دیگر مذاہب کے لوگ جیسے ہندو سادھو، بدھ بھکشو، نیپالی جادو گر، افریقی شاما ن اور بعض مسیحی شخصیات بھی دنگ کر دینے والے کمالات یا خرق عادت چیزیں دکھاتے ہیں۔ اصطلاح میں اسے استدراج کہتے ہیں۔ روحانی کمالات جب کوئی مسلمان سے سرزد ہوں تو انہیں کرامات کہا جاتا ہے، اگر کوئی غیر مسلم ہو تو اسے استدراج کہا جائے گا۔ معجزہ البتہ صرف اللہ کا نبی ہی دکھا سکتا ہے، یہ اصطلاح صرف نبی کے لئے مختص ہے۔

استدراج کے بارے میں عظیمہ سلسلہ سے تعلق رکھنے والے بزرگ روحانی سکالر خواجہ شمس الدین عظیمی لکھتے ہیں: " استدراج وہ علم ہے جو اعراف (اعراف وہ مقام جہاں انسان مرنے کے بعد قیام کرتا ہے)کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیرسایہ کسی آدمی میں خاص وجوہ کی بنا پر پرورش پا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے دور میں بھی اس کی مثالیں پیش آئی تھیں۔ معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے یعنی جب تک صاحب تصرف اس چیز کو نہیں ہٹائے گا وہ نہیں ہٹے گی، جبکہ استدراج کے زیراثر جو کچھ ہوتا ہے، وہ مستقل نہیں اور اس کا اثر فضا کے تاثرات بدلنے سے خودبخود ضائع ہوجاتا ہے۔ استدراج کے زیراثر جو کچھ ہوتا ہے، اسے جادو کہتے ہیں"۔

تصوف یا روحانیت کی طرف آنے والے بہت سے لوگ دراصل روحانی کمالات حاصل کرنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ قبلہ سرفراز اے شاہ اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اصل بات اپنے خالق اللہ کی دوستی ہے۔ اللہ کے دوستوں میں آجانا ہی اصل کمال اور منتہائے مقصود ہے۔ جب رب کا کرم ہوتا ہے اور وہ علم عطا کرتا ہے تو بہت کچھ مل جاتا ہے، مگر وہ سب بائی پراڈکٹ ہے، ضمنی فائدہ۔ یہ روحانی کمالات تصوف کا مقصود یا منزل نہیں۔ سرفراز شاہ صاحب اس حوالے سے فرماتے ہیں: "کچھ لوگ روحانیت کے حصول کی جستجو میں رہتے ہیں۔ کچھ لوگ جن کو اللہ نے توفیق بخشی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جن لوگوں پر اس سے بھی زیادہ اللہ کی رحمت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کے متلاشی رہتے ہیں۔ یہ تینوں چیزیں صرف اور صرف نیکی سے حاصل ہوتی ہیں"۔

عبادت اور نیکی دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ عبادت کے نتیجے میں انسان کو پارسائی تو مل جاتی ہے اور نیکی کی طرف جانا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن عبادت کی وجہ سے رب نہیں ملتا۔ رب صرف نیکی سے ملتا ہے اور نیکی کی آسان ترین اور مختصر ترین definition یہ ہے کہ انسان اپنے تمام حقوق، اپنی تمام خواہشات، اپنا آرام، اپنی ضروریات دوسروں کی ضروریات، خواہشات اور ان کے آرام کیلئے قربان کر دے۔ اگر قربان نہ کرسکے تو کم از کم Prefer ضرور کرے۔ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح ضرور دے۔ یہ نیکی ہے۔

"اس سلسلے میں ایک اور احتیاط لازم ہے کہ کسی طور پر کسی کا حق ہمارے ذمہ نہ رہ جائے۔ وہ لوگ جن کے حقوق ہمارے ذمہ ہیں ہم وہ حقوق پوری تندہی اور دیانتداری سے ادا کردیں اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز کی ہم احتیاط کرلیں کہ کسی کا حق نہ ماریں"۔ موجودہ دور میں انسان بہت حد تک مادہ پرست ہوگیا ہے۔ اگرچہ ہم میں سے کوئی بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گا اور نہ ہی ہمیں احساس ہوگا کہ ہم کسی قدر مادہ پرست ہو چکے ہیں حالانکہ مسلمان اور مادہ پرستی دو متضاد چیزیں تھیں اگر آپ کو مسجد میں کسی نمازی کے بہت قریب بیٹھنے کا اتفاق ہو اور وہ نمازی ذرا بلند آواز میں دعا مانگ رہا ہو تو اس بڑبڑاہٹ کو غور سے سنیں۔

رب تعالیٰ سے وہ دنیاوی ضروریات مانگتا ہوا آپ کو سنائی دے گا۔ یا اللہ! مجھے ترقی دے دے۔ یا اللہ! میرا ٹرانسفر میری پسند کی جگہ پرکرادے۔ یا اللہ میرا رزق وسیع ہو جائے۔ میرا کاروبار چل جائے۔ یا اللہ! میرا بچہ سدھر جائے۔ اس قبیل کی سب دعائیں مانگی جا رہی ہوتی ہیں۔ اگر کبھی کسی سے آپ کہیں کہ صاحب یہ سب کیا ہے تو وہ کبھی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ اس کے نزدیک دنیا اہم ہے۔ وہ ہمیشہ یہی کہے گا، نہیں۔ یہ دنیا تو چار دن کی ہے۔ اس نے تو ختم ہو جانا ہے۔ زندگی تو آخرت کی ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس چار روزہ زندگی کا سب سامان اسے چاہے، وہ سب سامان مانگتا بھی ہے رب تعالیٰ سے لیکن دائمی زندگی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتا"۔

تسبیحات اور ذکر کی وجہ بیان کرتے ہوئے سرفراز اے شاہ اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں: "تسبیح کیا ہے؟ اس کے استعمال کا مقصد یکسوئی بڑھانے کے ماسوا کیا ہے؟ ہم تسبیح کا دانہ آگے کرنے پر توجہ کررہے ہوتے ہیں۔ دل اور زبان سے ذکر ہورہا ہے جب کہ ذہن دانہ آگے کرنے پر لگا ہے۔ جب یکسوئی بڑھ جاتی ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک مشہور عالم دین کی طرح آپریشن ٹیبل پر Anaesthesia (بے ہوش ہونے کی دوا) نہیں لیتے بلکہ کہتے ہیں میں اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہوں آپ ٹانگ کاٹ دیجیے۔ اللہ کے ذکر میں یکسوئی کا یہ عالم ہے کہ ان کی ٹانگ کٹ جاتی ہے۔ آپریشن ختم ہوجاتا ہے اور انہیں تکلیف کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا۔

جب رب تعالیٰ کے ذکر میں اور رب کی ذات پر غوروفکر میں یکسوئی حاصل ہوگئی تو رب سے تعلق جڑ گیا۔ ایسے میں انسان کو چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ وہ صاحب کشف ہوگیا۔ درحقیقت وہ زماں و مکان سے Beyondچلا جاتا ہے۔ یہ مجاہدے اور ریاضت سب اپنی جگہ پر بجا ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان اپنے فرائض خوبصورتی سے ادا کرے۔ یہ فرائض دو طرح کے ہیں:

1۔ حقوق اللہ سے متعلق فرائض

2۔ حقوق العباد سے متعلق فرائض

متوازن رویہ یہ ہوگا کہ دونوں حقوق خوبصورتی سے ادا کردیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں"فنا فی اللہ" ہو جائیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کے وقت بے نیاز ہوجائیں اپنے ارادوں، تمنائوں اور خواہشات سے۔ صرف دوسروں کے لیے زندہ رہیں۔

جب حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق اپنے فرائض ہم خلوص نیت سے ادا کرنے لگتے ہیں تو قرب الٰہی خود بخود حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن ہوتا کیا ہے۔ ہم ان حقوق کی ادائیگی Daily Drill کی طرح کرنے لگتے ہیں۔ جسم تو ڈرل (Drill)کررہا ہے لیکن دل اس کا ساتھ نہیں دے رہا اور دماغ کا کاروبار حیات کے نفع ونقصان میں الجھا ہوا ہے۔ ایسے میں سوائے ثواب اور جسمانی مشق کے اور کیا ملے گا؟

فرائض اس طرح ادا نہیں کیے جانے چاہیں۔ اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے میں نکلا۔ کسی بھوکے کو دیکھ کر کھانا کھلانے کا سوچا اور ساتھ ہی کہا بھائی جلدی کھائو مجھے جانا ہے اور یہ تم خود کیوں نہیں کماتے؟ یہاں تو دیا بجھا دینا چاہیے تاکہ بلاجھجھک بھوکا کھانا کھاسکے۔

ضرورت اخلاص کی ہے۔ جب نیت میں اخلاص ہوگا تو رب اتنا قریب آجائے گا۔ جس قدر فرائض کی ادائیگی میں ڈوب جائیں گے اسی قدر رب قریب ملے گا۔ اس میں ڈوبنے کے لیے ریاضت، چلے، مجاہدے ضروری نہیں"۔

Check Also

Maulana Fazal Ur Rehman Se 10 Sawal

By Najam Wali Khan